ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے
آؤ کچھ دیر کو ٹھہر جائیں
شکیب جلالی
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے
شکیب جلالی
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
شکیب جلالی
ایک اپنا دیا جلانے کو
تم نے لاکھوں دیے بجھائے ہیں
شکیب جلالی
دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ
جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا
شکیب جلالی
بس ایک رات ٹھہرنا ہے کیا گلہ کیجے
مسافروں کو غنیمت ہے یہ سرائے بہت
شکیب جلالی
بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا
شکیب جلالی
ابھی ارمان کچھ باقی ہیں دل میں
مجھے پھر آزمایا جا رہا ہے
شکیب جلالی
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
شکیب جلالی