مجھ کو یاد رہا تو بھولا
بات ہے یہ تو عادت کی
پریم بھنڈاری
آگ لگائی تم نے ہی تو
لوگوں نے تو صرف ہوا دی
پریم بھنڈاری
میں تو سب کچھ بھول چکا ہوں
تو بھولے تو بات برابر
پریم بھنڈاری
کچھ رشتے ہیں جن کی خاطر
جیتے جی مرنا ہوتا ہے
پریم بھنڈاری
کھیل کود کر شام ڈھلے کیوں
اپنے گھر کو جاتی دھوپ
پریم بھنڈاری
کیسے تنہا رات کٹے گی
یادوں کی گٹھری ہی کھولیں
پریم بھنڈاری
جس پر تمام عمر بہت ناز تھا مجھے
میرا وہ علم میری سفارش نہ بن سکا
پریم بھنڈاری
جانے کیوں لوگ مرا نام پڑھا کرتے ہیں
میں نے چہرے پہ ترے یوں تو لکھا کچھ بھی نہیں
پریم بھنڈاری
چھپی ہے ان گنت چنگاریاں لفظوں کے دامن میں
ذرا پڑھنا غزل کی یہ کتاب آہستہ آہستہ
پریم بھنڈاری