کیسی کشش ہے عشق کے ٹوٹے مزار میں
میلہ لگا ہوا ہے ہمارے دیار میں
جتیندر موہن سنہا رہبر
آنکھوں آنکھوں میں پلا دی مرے ساقی نے مجھے
خوف ذلت ہے نہ اندیشۂ رسوائی ہے
جتیندر موہن سنہا رہبر
ہم رو بہ روئے شمع ہیں اس انتظار میں
کچھ جاں پروں میں آئے تو اڑ کر نثار ہوں
جتیندر موہن سنہا رہبر
ہے فہم اس کا جو ہر انسان کے دل کی زباں سمجھے
سخن وہ ہے جسے ہر شخص اپنا ہی بیاں سمجھے
جتیندر موہن سنہا رہبر
فرشتہ ہر بشر کو ہر زمیں کو آسماں سمجھے
کہ ہم تو عشق میں دنیا کو ہی جنت نشاں سمجھے
جتیندر موہن سنہا رہبر
ایک آنسو بھی اگر رو دے تو جانوں تجھ کو
میری تقدیر مجھے دیکھ کر ہنستی کیا ہے
جتیندر موہن سنہا رہبر
دوزخ سے بھی خراب کہوں میں بہشت کو
دو چار اگر وہاں پہ بھی سرمایہ دار ہوں
جتیندر موہن سنہا رہبر
دل اس کا جگر اس کا ہے جاں اس کی ہم اس کے
کس بات سے انکار کیا جائے کسی کو
جتیندر موہن سنہا رہبر
چھپے ہیں سات پردوں میں یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
انہیں میری نگاہوں نے جہاں ڈھونڈا وہاں نکلے
جتیندر موہن سنہا رہبر