غیر وفا میں پختہ ہیں یوں ہی سہی پہ مجھ سا بھی
ایک تری جناب میں خام رہا تو کیا ہوا
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی
دین و دنیا کا جو نہیں پابند
وہ فراغت تمام رکھتا ہے
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی
دیکھنا زور ہی گانٹھا ہے دل یار سے دل
سنگ و شیشے کو کیا ہے میں ہنر سے پیوند
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی
بہار اس دھوم سے آئی گئی امید جینے کی
گریباں پھٹ چکا کوئی دم میں اب نوبت ہی سینے کی
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی
اور ربط جسے کفر سے ہے یعنی برہمن
کہتا ہے کہ ہرگز مرا زنار نہ ٹوٹے
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی
اے بحر نہ تو اتنا امنڈ چل مرے آگے
رو رو کے ڈبا دوں گا کبھی آ گئی گر موج
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی
ادا کو تری میرا جی جانتا ہے
حریف اپنا ہر کوئی پہچانتا ہے
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی
عبث گھر سے اپنے نکالے ہے تو
بھلا ہم تجھے چھوڑ کر جائیں گے
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی
آزردہ کچھ ہیں شاید ورنہ حضور مجھ سے
کیوں منہ پھلا رہا ہے وہ گلعذار اپنا
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی