EN हिंदी
فاروق نازکی شیاری | شیح شیری

فاروق نازکی شیر

15 شیر

مجھ سے کیا پوچھتے ہو نام پتہ
میں تو بس آپ کا ہی سایہ ہوں

فاروق نازکی




قدروں کی حدیں توڑ نئی طرح نکال
دم تجھ میں اگر ہے تو باغی ہو جا

فاروق نازکی




سنگ پرستوں کی بستی میں شیشہ گروں کی خیر نہیں ہے
جن کی آنکھیں نور سے خالی ان کے دل ہیں آہن آہن

فاروق نازکی




ستارے بوتی رہیں نیند سے تہی آنکھیں
ادھر یہ حال کہ دامن بھی تر نہیں ہوتا

فاروق نازکی




سنا ہے لوگ وہاں مجھ سے خار کھاتے ہیں
فسانہ عام جہاں میری بے بسی کا ہے

فاروق نازکی




تو خدا ہے تو بجا مجھ کو ڈراتا کیوں ہے
جا مبارک ہو تجھے تیرے کرم کا سایہ

فاروق نازکی