ادائیں تا ابد بکھری پڑی ہیں
ازل میں پھٹ پڑا جوبن کسی کا
بیان میرٹھی
اے تن پرست جامۂ صورت کثیف ہے
بزم حضور دوست میں کپڑے بدل کے چل
بیان میرٹھی
دل آیا ہے قیامت ہے مرا دل
اٹھے تعظیم دے جوبن کسی کا
بیان میرٹھی
گوہر مقصد ملے گر چرخ مینائی نہ ہو
غوطہ زن بحر حقیقت میں ہوں گر کائی نہ ہو
بیان میرٹھی
ہوائے وحشت دل لے اڑی کہاں سے کہاں
پڑی ہے دور زمیں گرد کارواں کی طرح
بیان میرٹھی
ہزاروں دل مسل کر پیر سے جھنجھلا کے یوں بولے
لو پہچانو تمہارا ان دلوں میں کون سا دل ہے
بیان میرٹھی
کبھی ہنسایا کبھی رلایا کبھی رلایا کبھی ہنسایا
جھجک جھجک کر سمٹ سمٹ کر لپٹ لپٹ کر دبا دبا کر
بیان میرٹھی
نہیں یہ آدمی کا کام واعظ
ہمارے بت تراشے ہیں خدا نے
بیان میرٹھی
نیرنگیاں فلک کی جبھی ہیں کہ ہوں بہم
کالی گھٹا سفید پیالے شراب سرخ
بیان میرٹھی