EN हिंदी
اسلم انصاری شیاری | شیح شیری

اسلم انصاری شیر

12 شیر

دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے

اسلم انصاری




ہم کو پہچان کہ اے بزم چمن زار وجود
ہم نہ ہوتے تو تجھے کس نے سنوارا ہوتا

اسلم انصاری




ہم نے ہر خواب کو تعبیر عطا کی اسلمؔ
ورنہ ممکن تھا کہ ہر نقش ادھورا ہوتا

اسلم انصاری




ہمارے ہاتھ فقط ریت کے صدف آئے
کہ ساحلوں پہ ستارہ کوئی رہا ہی نہ تھا

اسلم انصاری




جانے والے کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں

اسلم انصاری




جسے درپیش جدائی ہو اسے کیا معلوم
کون سی بات کو کس طرح بیاں ہونا ہے

اسلم انصاری




جوئے نغمات پہ تصویر سی لرزاں دیکھی
لب تصویر پہ ٹھہرا ہوا نغمہ دیکھا

اسلم انصاری




خفا نہ ہو کہ ترا حسن ہی کچھ ایسا تھا
میں تجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

اسلم انصاری




کسے کہیں کہ رفاقت کا داغ ہے دل پر
بچھڑنے والا تو کھل کر کبھی ملا ہی نہ تھا

اسلم انصاری