EN हिंदी
احمد حسین مائل شیاری | شیح شیری

احمد حسین مائل شیر

37 شیر

ہنگام قناعت دل مردہ ہوا زندہ
مضمون قم اعجاز لب نان جویں تھا

احمد حسین مائل




آسماں کھائے تو زمین دیکھے
دہن گور کا نوالا ہوں

احمد حسین مائل




جا کے میں کوئے بتاں میں یہ صدا دیتا ہوں
دل و دیں بیچنے آیا ہے مسلماں کوئی

احمد حسین مائل




جلسوں میں خلوتوں میں خیالوں میں خواب میں
پہنچی کہاں کہاں نگہ انتظار آج

احمد حسین مائل




جتنے اچھے ہیں میں ہوں ان میں برا
ہیں برے جتنے ان میں اچھا ہوں

احمد حسین مائل




جو آئے حشر میں وہ سب کو مارتے آئے
جدھر نگاہ پھری چوٹ پر لگائی چوٹ

احمد حسین مائل




جو ان کو لپٹا کے گال چوما حیا سے آنے لگا پسینہ
ہوئی ہے بوسوں کی گرم بھٹی کھنچے نہ کیوں کر شراب عارض

احمد حسین مائل




کھول کر زلف مسلسل کو پڑھی اس نے نماز
گھر میں اللہ کے بھی جال بچھا کر آیا

احمد حسین مائل




کچھ نہ پوچھو زاہدوں کے باطن و ظاہر کا حال
ہے اندھیرا گھر میں اور باہر دھواں بتی چراغ

احمد حسین مائل