سردی بھی ختم ہو گئی برسات بھی گئی
اور اس کے ساتھ گرمئ جذبات بھی گئی
اس نے مری کتاب کا دیباچہ پڑھ لیا
اب تو کبھی کبھی کی ملاقات بھی گئی
میں آسماں پہ جا کے بھی تارے نہ لا سکا
تم بھی گئے اداس مری بات بھی گئی
ہم صوفیوں کا دونوں طرف سے زیاں ہوا
عرفان ذات بھی نہ ہوا رات بھی گئی
ملنے لگی ہے عام تو پینا بھی کم ہوا
قلت کے ختم ہوتے ہی بہتات بھی گئی
غزل
سردی بھی ختم ہو گئی برسات بھی گئی
شجاع خاور