EN हिंदी
شمما شیاری | شیح شیری

شمما

18 شیر

اے شمع صبح ہوتی ہے روتی ہے کس لیے
تھوڑی سی رہ گئی ہے اسے بھی گزار دے

عیش دہلوی




جانے کیا محفل پروانہ میں دیکھا اس نے
پھر زباں کھل نہ سکی شمع جو خاموش ہوئی

علیم مسرور




سب اک چراغ کے پروانے ہونا چاہتے ہیں
عجیب لوگ ہیں دیوانے ہونا چاہتے ہیں

اسعد بدایونی




روشنی جب سے مجھے چھوڑ گئی
شمع روتی ہے سرہانے میرے

اصغر ویلوری




شمع بجھ کر رہ گئی پروانہ جل کر رہ گیا
یادگار‌ حسن و عشق اک داغ دل پر رہ گیا

عزیز لکھنوی




تو کہیں ہو دل دیوانہ وہاں پہنچے گا
شمع ہوگی جہاں پروانہ وہاں پہنچے گا

بہادر شاہ ظفر




میں ڈھونڈھ رہا ہوں مری وہ شمع کہاں ہے
جو بزم کی ہر چیز کو پروانہ بنا دے

بہزاد لکھنوی