EN हिंदी
حجرت شیاری | شیح شیری

حجرت

18 شیر

پھر نئی ہجرت کوئی درپیش ہے
خواب میں گھر دیکھنا اچھا نہیں

عبد اللہ جاوید




ڈھنگ کے ایک ٹھکانے کے لیے
گھر کا گھر نقل مکانی میں رہا

ابرار احمد




یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا

آفتاب اقبال شمیم




پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے
یہ ناؤ کون سی ہے یہ دریا کہاں کا ہے

احمد مشتاق




میں کیا جانوں گھروں کا حال کیا ہے
میں ساری زندگی باہر رہا ہوں

امیر قزلباش




تلاش رزق کا یہ مرحلہ عجب ہے کہ ہم
گھروں سے دور بھی گھر کے لیے بیس ہوئے ہیں

عارف امام




درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں
سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے

بخش لائلپوری