EN हिंदी
دوشنانی شیاری | شیح شیری

دوشنانی

21 شیر

کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی
بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے

احمد فراز




یہ بھی اک بات ہے عداوت کی
روزہ رکھا جو ہم نے دعوت کی

امیر مینائی




اپنے بیگانے سے اب مجھ کو شکایت نہ رہی
دشمنی کر کے مرے دوست نے مارا مجھ کو

ارشد علی خان قلق




دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

bear enmity with all your might, but this we should decide
if ever we be friends again, we are not mortified

بشیر بدر




دشمنی کا سفر اک قدم دو قدم
تم بھی تھک جاؤ گے ہم بھی تھک جائیں گے

بشیر بدر




محبت عداوت وفا بے رخی
کرائے کے گھر تھے بدلتے رہے

بشیر بدر




وفا پر دغا صلح میں دشمنی ہے
بھلائی کا ہرگز زمانہ نہیں ہے

دتا تریہ کیفی