EN हिंदी
آشنا ہوتے ہی اس عشق نے مارا مجھ کو | شیح شیری
aashna hote hi us ishq ne mara mujhko

غزل

آشنا ہوتے ہی اس عشق نے مارا مجھ کو

ارشد علی خان قلق

;

آشنا ہوتے ہی اس عشق نے مارا مجھ کو
نہ ملا بحر محبت کا کنارا مجھ کو

کیوں مرے قتل کو تلوار برہنہ کی ہے
تیغ ابرو کا تو کافی ہے اشارا مجھ کو

خود ترے دام میں آیا کوئی افسوں نہ چلا
اے پری تو نے تو شیشے میں اتارا مجھ کو

میرے عیسیٰ کا ذرا دیکھنا اعجاز خرام
ایک ٹھوکر سے ملی عمر دوبارا مجھ کو

مانع دولت دیدار نہ ہو اے گریہ
رخ محبوب کا کرنے دے نظارا مجھ کو

دل میں اک گوہر خوبی کی محبت کا ہے جوش
آج کل بھاتا ہے دریا کا کنارا مجھ کو

دم دلاسے ہی میں ٹالا کیے ہر روز آخر
سوکھے گھاٹ اے گل تر خوب اتارا مجھ کو

نقد جاں نذر کروں تیرے پھر اے قاتل خلق
زندہ کر دے اگر اللہ دوبارا مجھ کو

پہلو یار کو غیروں سے جو خالی پایا
دل بیتاب نے کیا کیا نہ ابھارا مجھ کو

میں یہاں منتظر وعدہ رہا لیکن وہ
رہ گئے اور کہیں دے کے سہارا مجھ کو

آخر انسان ہوں پتھر کا تو رکھتا نہیں دل
اے بتو اتنا ستاؤ نہ خدا را مجھ کو

اپنے بیگانے سے اب مجھ کو شکایت نہ رہی
دشمنی کر کے مرے دوست نے مارا مجھ کو

پھندے میں پھنس کے میں اس کے نہ ہوا پھر جاں بر
تار گیسو نے ترے مار اتارا مجھ کو

ان کو سوجھا نہ ذرا پست و بلند الفت
غیر سے چڑھ گئے نظروں سے اتارا مجھ کو

صدمۂ صحبت اغیار نہ اٹھے گا کبھی
اور جو ظلم کرو سب ہیں گوارا مجھ کو

شاد اس سے ہوں کہ اس قاتل عالم نے خود آج
کہہ کے او عاشق ناشاد پکارا مجھ کو

جاں دی عشق میں اس حور کے میں نے جو قلقؔ
قبر میں آ کے فرشتوں نے اتارا مجھ کو