EN हिंदी
بقاری شیاری | شیح شیری

بقاری

23 شیر

بیتاب سا پھرتا ہے کئی روز سے آسیؔ
بیچارے نے پھر تم کو کہیں دیکھ لیا ہے

آسی الدنی




قول آبروؔ کا تھا کہ نہ جاؤں گا اس گلی
ہو کر کے بے قرار دیکھو آج پھر گیا

آبرو شاہ مبارک




جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا
یہ سکوں کا دور شدید ہے کوئی بے قرار کہاں رہا

ادا جعفری




کسی طرح تو گھٹے دل کی بے قراری بھی
چلو وہ چشم نہیں کم سے کم شراب تو ہو

آفتاب حسین




بے قراری تھی سب امید ملاقات کے ساتھ
اب وہ اگلی سی درازی شب ہجراں میں نہیں

الطاف حسین حالی




جانے دے صبر و قرار و ہوش کو
تو کہاں اے بے قراری جائے گی

امیر اللہ تسلیم




ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکون دل
اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا

آزاد انصاری