جلد مر گئے تری حسرت سیتی ہم
کہ ترا دیر کا آنا نہ گیا
ولی عزلت
اے سالک انتظار حج میں کیا تو ہکا بکا ہے
بگولے سا تو کر لے طوف دل پہلو میں مکہ ہے
ولی عزلت
جا کر فنا کے اس طرف آسودہ میں ہوا
میں عالم عدم میں بھی دیکھا مزہ نہ تھا
ولی عزلت
عشق گورے حسن کا عاشق کے دل کو دے جلا
سانولوں کے عاشقوں کا دل ہے کالا کوئلہ
ولی عزلت
اس زمانے میں بزرگی سفلگی کا نام ہے
جس کی ٹکیا میں پھرے انگلی سو ہو جاوے ترا
ولی عزلت
ہندو و مسلمین ہیں حرص و ہوا پرست
ہو آشنا پرست وہی ہے خدا پرست
ولی عزلت
ہم اس کی زلف کی زنجیر میں ہوئے ہیں اسیر
سجن کے سر کی بلا آ پڑی ہمارے گلے
ولی عزلت
غنیمت بوجھ لیویں میرے درد آلود نالوں کو
یہ دیوانہ بہت یاد آئے گا شہری غزالوں کو
ولی عزلت
گئے سب مرد رہ گئے رہزن اب الفت سے کامل ہوں
اے دل والو میں ان دل والیوں سے سخت بیدل ہوں
ولی عزلت