EN हिंदी
شوکت پردیسی شیاری | شیح شیری

شوکت پردیسی شیر

34 شیر

ادھورا ہو کے ہوں کتنا مکمل
بہ مشکل زندگی بکھرا ہوا ہوں

شوکت پردیسی




اگر تم جل بھی جاتے تو نہ ہوتا ختم افسانہ
پھر اس کے بعد دل میں کیا خبر کیا آرزو ہوتی

شوکت پردیسی




عہد آغاز تمنا بھی مجھے یاد نہیں
محو حیرت ہوں کہ اتنا بھی مجھے یاد نہیں

شوکت پردیسی




اے انقلاب نو تری رفتار دیکھ کر
خود ہم بھی سوچتے ہیں کہ اب تک کہاں رہے

شوکت پردیسی




اپنے پرائے تھک گئے کہہ کر ہر کوشش بیکار رہی
وقت کی بات سمجھ میں آئی وقت ہی کے سمجھانے سے

شوکت پردیسی




برق کی شعلہ مزاجی ہے مسلم لیکن
میں نے دیکھا مرے سائے سے یہ کتراتی ہے

شوکت پردیسی




دیتا رہا فریب مسلسل کوئی مگر
امکان التفات سے ہم کھیلتے رہے

شوکت پردیسی




ہنستے ہنستے بہے ہیں آنسو بھی
روتے روتے ہنستی بھی آئی ہمیں

شوکت پردیسی




ہائے اس منت کش وہم و گماں کی جستجو
زندگی جس کو نہ پاے جو نہ پاے زندگی

شوکت پردیسی