EN हिंदी
شاد عظیم آبادی شیاری | شیح شیری

شاد عظیم آبادی شیر

29 شیر

اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا
زندگی چھوڑ دے پیچھا مرا میں باز آیا

شاد عظیم آبادی




اے شوق پتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ کرشمہ کچھ نہ کھلا
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم

شاد عظیم آبادی




بھرے ہوں آنکھ میں آنسو خمیدہ گردن ہو
تو خامشی کو بھی اظہار مدعا کہیے

شاد عظیم آبادی




چمن میں جا کے ہم نے غور سے اوراق گل دیکھے
تمہارے حسن کی شرحیں لکھی ہیں ان رسالوں میں

شاد عظیم آبادی




ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

شاد عظیم آبادی




دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں

شاد عظیم آبادی




ہزار شکر میں تیرے سوا کسی کا نہیں
ہزار حیف کہ اب تک ہوا نہ تو میرا

شاد عظیم آبادی




ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں

شاد عظیم آبادی




اظہار مدعا کا ارادہ تھا آج کچھ
تیور تمہارے دیکھ کے خاموش ہو گیا

thoughI had intended my feelings to convey
seeing your disposition, I did not dare to say

شاد عظیم آبادی