EN हिंदी
نہ دل اپنا نہ غم اپنا نہ کوئی غم گسار اپنا | شیح شیری
na dil apna na gham apna na koi gham-gusar apna

غزل

نہ دل اپنا نہ غم اپنا نہ کوئی غم گسار اپنا

شاد عظیم آبادی

;

نہ دل اپنا نہ غم اپنا نہ کوئی غم گسار اپنا
ہم اپنا جانتے ہر چیز کو ہوتا جو یار اپنا

جمے کس طرح اس حیرت کدے میں اعتبار اپنا
نہ دل اپنا نہ جان اپنی نہ ہم اپنے نہ یار اپنا

حقیقت میں ہمیں کو جب نہیں خود اعتبار اپنا
غلط سمجھی اگر سمجھی ہے تن کو جان زار اپنا

کہیں ہے دام ارماں کا کہیں دانے امیدوں کے
اجل کرتی ہے کس کس گھات سے ہم کو شکار اپنا

الٰہی خیر ہو اب کے بہار باغ نے پھر بھی
جمایا بے طرح بلبل کے دل پر اعتبار اپنا

جو مے کو ڈھال بھی لیں ہم تو ساقی کے اشارے پر
نہیں اس کے علاوہ مے کدے میں اختیار اپنا

اگر قاصد حقیقت میں پیام وصل لایا ہے
تو کیوں آنسو بھرے منہ دیکھتا ہے غم گسار اپنا

ضرورت کیا کسی کو اس طرف ہو کر گزرنے کی
الگ اے بیکسی بستی سے ہے کوسوں مزار اپنا

معاذ اللہ فرقت کی ہیں راتیں قبر کی راتیں
ابھی سے یاں ہوا جاتا ہے سن سن کر فشار اپنا

گلوں کی سرخ رنگت جسم میں لوکے لگاتی ہے
دکھاتی ہے تماشا کس کی آنکھوں کو بہار اپنا

خطر کیا کشتئ مے کو بھلا موج حوادث کا
نہ بیڑا پار ہو کیونکر کہ خود ساقی ہے یار اپنا

چھپا لے گا کسی دن عرش تک کو اپنے دامن میں
دکھا دے گا تماشا پھیل کر مشت غبار اپنا

خبر کیا غیب کی غم خوار کو اور یاں یہ عالم ہے
کہا جاتا نہیں اپنی زباں سے حال زار اپنا

نہیں کرتا گوارا راہ رو کے دل پہ میل آنا
اڑا کرتا ہے رستہ سے الگ ہٹ کر غبار اپنا

دم آیا ناک میں فریادیوں کے شور و غوغا سے
قیامت میں عبث کیوں کھینچ لایا انتشار اپنا

ہم اک مہماں ہیں ہم سے دوستی کرنے کا حاصل کیا
نہیں کچھ اس جہاں میں اے شب غم اعتبار اپنا

کچھ ایسا کر کہ خلد آباد تک اے شادؔ جا پہنچیں
ابھی تک راہ میں وہ کر رہے ہیں انتظار اپنا