کھلے دھان کھلکھلا کر پڑے ندیوں میں ناکے
گھنی خوشبوؤں سے مہکے مرے دیس کے علاقے
ناصر شہزاد
اخروٹ کھائیں تاپیں انگیٹھی پہ آگ آ
رستے تمام گاؤں کے کہرے سے اٹ گئے
ناصر شہزاد
اک خطہ خوں میں کہیں دریا کے کنارے
دیوار زمانہ سے گرا دھیان پھسل کر
ناصر شہزاد
ہجرتوں میں حضوریوں کے جتن
پاؤں کو دوریوں نے گھیرا ہے
ناصر شہزاد
ہم وہ لوگ ہیں جو چاہت میں
جی نہ سکیں تو مر رہتے ہیں
ناصر شہزاد
ایک کاٹا رام نے سیتا کے ساتھ
دوسرا بن باس میرے نام پر
ناصر شہزاد
دینا مرا سندیش سکھی پھر
پہلے چھونا اس کے پاؤں
ناصر شہزاد
دیکھا قد گناہ پہ جب اس کو ملتفت
بڑھ کر حد نگاہ لگی اس کو ڈھانپنے
ناصر شہزاد
دریا پہ ٹیکری سے پرے خانقاہ تھی
تب تیرے میرے پیار کی دنیا گواہ تھی
ناصر شہزاد