EN हिंदी
منیر نیازی شیاری | شیح شیری

منیر نیازی شیر

116 شیر

آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی

منیر نیازی




آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

منیر نیازی




عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

منیر نیازی




آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

منیر نیازی




اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا

منیر نیازی




اب کسی میں اگلے وقتوں کی وفا باقی نہیں
سب قبیلے ایک ہیں اب ساری ذاتیں ایک سی

منیر نیازی




اچھی مثال بنتیں ظاہر اگر وہ ہوتیں
ان نیکیوں کو ہم تو دریا میں ڈال آئے

منیر نیازی




ایسا سفر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں
ایسا مکاں ہے جس میں کوئی ہم نفس نہیں

منیر نیازی




اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا

منیر نیازی