EN हिंदी
کیفی اعظمی شیاری | شیح شیری

کیفی اعظمی شیر

18 شیر

اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں
ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں

کیفی اعظمی




بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا
مجھے تو آج طلب کر لیا ہے صحرا نے

کیفی اعظمی




بس اک جھجک ہے یہی حال دل سنانے میں
کہ تیرا ذکر بھی آئے گا اس فسانے میں

کیفی اعظمی




بستی میں اپنی ہندو مسلماں جو بس گئے
انساں کی شکل دیکھنے کو ہم ترس گئے

کیفی اعظمی




بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں
میں کہاں دفن ہوں کچھ پتا تو چلے

کیفی اعظمی




گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو
ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ

کیفی اعظمی




غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ
قدر وطن ہوئی ہمیں ترک وطن کے بعد

کیفی اعظمی




انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں بھی چاہیئے دو گز کفن کے بعد

کیفی اعظمی




اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے

کیفی اعظمی