EN हिंदी
تارے درد کے جھونکے بن کر آتے ہیں | شیح شیری
tare dard ke jhonke ban kar aate hain

غزل

تارے درد کے جھونکے بن کر آتے ہیں

باقی صدیقی

;

تارے درد کے جھونکے بن کر آتے ہیں
ہم بھی نیند کی صورت اڑتے جاتے ہیں

جب انداز بہاروں کے یاد آتے ہیں
ہم کاغذ پر کیا کیا پھول بناتے ہیں

وقت کا پتھر بھاری ہوتا جاتا ہے
ہم مٹی کی صورت دیتے جاتے ہیں

کیا ذروں کا جوش صبا نے چھین لیا
گلشن میں کیوں یاد بگولے آتے ہیں

دنیا نے ہر بات میں کیا کیا رنگ بھرے
ہم سادہ اوراق الٹتے جاتے ہیں

دل ناداں ہے شاید راہ پہ آ جائے
تم بھی سمجھاؤ ہم بھی سمجھاتے ہیں

تم بھی الٹی الٹی باتیں پوچھتے ہو
ہم بھی کیسی کیسی قسمیں کھاتے ہیں

بیٹھ کے روئیں کس کو فرصت ہے باقیؔ
بھولے بسرے قصے یاد تو آتے ہیں