اب یہی سوچتے رہتے ہیں بچھڑ کر تجھ سے
شاید ایسے نہیں ہوتا اگر ایسا کرتے
عاصمؔ واسطی
عجیب شور مچانے لگے ہیں سناٹے
یہ کس طرح کی خموشی ہر اک صدا میں ہے
عاصمؔ واسطی
بدل گیا ہے زمانہ بدل گئی دنیا
نہ اب وہ میں ہوں مری جاں نہ اب وہ تو تو ہے
عاصمؔ واسطی
بنا رکھا ہے منصوبہ کئی برسوں کا تو نے
اگر اک دن اچانک تجھ کو مرنا پڑ گیا تو
عاصمؔ واسطی
غلط روی کو تری میں غلط سمجھتا ہوں
یہ بے وفائی بھی شامل مری وفا میں ہے
عاصمؔ واسطی
ہم اپنے باغ کے پھولوں کو نوچ ڈالتے ہیں
جب اختلاف کوئی باغباں سے ہوتا ہے
عاصمؔ واسطی
ہونٹوں کو پھول آنکھ کو بادہ نہیں کہا
تجھ کو تری ادا سے زیادہ نہیں کہا
عاصمؔ واسطی
انتہائی حسین لگتی ہے
جب وہ کرتی ہے روٹھ کر باتیں
عاصمؔ واسطی
کہیں کہیں تو زمیں آسماں سے اونچی ہے
یہ راز مجھ پہ کھلا سیڑھیاں اترتے ہوئے
عاصمؔ واسطی