EN हिंदी
علی جواد زیدی شیاری | شیح شیری

علی جواد زیدی شیر

26 شیر

گفتگو کے ختم ہو جانے پر آیا یہ خیال
جو زباں تک آ نہیں پایا وہی تو دل میں تھا

علی جواد زیدی




آنکھوں میں لیے جلوۂ نیرنگ تماشا
آئی ہے خزاں جشن بہاراں سے گزر کے

علی جواد زیدی




ایک تمہاری یاد نے لاکھ دیے جلائے ہیں
آمد شب کے قبل بھی ختم سحر کے بعد بھی

علی جواد زیدی




دل میں جو درد ہے وہ نگاہوں سے ہے عیاں
یہ بات اور ہے نہ کہیں کچھ زباں سے ہم

علی جواد زیدی




دل کا لہو نگاہ سے ٹپکا ہے بارہا
ہم راہ غم میں ایسی بھی منزل سے آئے ہیں

علی جواد زیدی




دکھا دی میں نے وہ منزل جو ان دونوں کے آگے ہے
پریشاں ہیں کہ آخر اب کہیں کیا کفر و دیں مجھ سے

علی جواد زیدی




دیار سجدہ میں تقلید کا رواج بھی ہے
جہاں جھکی ہے جبیں ان کا نقش پا تو نہیں

علی جواد زیدی




عیش ہی عیش ہے نہ سب غم ہے
زندگی اک حسین سنگم ہے

علی جواد زیدی




اب نہ وہ شورش رفتار نہ وہ جوش جنوں
ہم کہاں پھنس گئے یاران سبک گام کے ساتھ

علی جواد زیدی