EN हिंदी
شکوے ہم اپنی زباں پر کبھی لائے تو نہیں | شیح شیری
shikwe hum apni zaban par kabhi lae to nahin

غزل

شکوے ہم اپنی زباں پر کبھی لائے تو نہیں

علی جواد زیدی

;

شکوے ہم اپنی زباں پر کبھی لائے تو نہیں
ہاں مگر اشک جب امڈے تھے چھپائے تو نہیں

تیری محفل کے بھی آداب کہ دل ڈرتا ہے
میری آنکھوں نے در اشک لٹائے تو نہیں

چھان لی خاک بیابانوں کی ویرانوں کی
پھر بھی انداز جنوں عقل نے پائے تو نہیں

لاکھ پر وحشت و پر ہول سہی شام فراق
ہم نے گھبرا کے دیے دن سے جلائے تو نہیں

اب تو اس بات پہ بھی صلح سی کر لی ہے کہ وہ
نہ بلائے نہ سہی دل سے بھلائے تو نہیں

ہجر کی رات یہ ہر ڈوبتے تارے نے کہا
ہم نہ کہتے تھے نہ آئیں گے وہ آئے تو نہیں

انقلاب آتے ہیں رہتے ہیں جہاں میں لیکن
جو بنانے کا نہ ہو اہل مٹائے تو نہیں

اپنی اس شوخی رفتار کا انجام نہ سوچ
فتنے خود اٹھنے لگے تو نے اٹھائے تو نہیں