EN हिंदी
زندگی کیا ہوئے وہ اپنے زمانے والے | شیح شیری
zindagi kya hue wo apne zamane wale

غزل

زندگی کیا ہوئے وہ اپنے زمانے والے

اختر سعید خان

;

زندگی کیا ہوئے وہ اپنے زمانے والے
یاد آتے ہیں بہت دل کو دکھانے والے

راستے چپ ہیں نسیم سحری بھی چپ ہے
جانے کس سمت گئے ٹھوکریں کھانے والے

اجنبی بن کے نہ مل عمر گریزاں ہم سے
تھے کبھی ہم بھی ترے ناز اٹھانے والے

آ کہ میں دیکھ لوں کھویا ہوا چہرہ اپنا
مجھ سے چھپ کر مری تصویر بنانے والے

ہم تو اک دن نہ جیے اپنی خوشی سے اے دل
اور ہوں گے ترے احسان اٹھانے والے

دل سے اٹھتے ہوئے شعلوں کو کہاں لے جائیں
اپنے ہر زخم کو پہلو میں چھپانے والے

نکہت صبح چمن بھول نہ جانا کہ تجھے
تھے ہمیں نیند سے ہر روز جگانے والے

ہنس کے اب دیکھتے ہیں چاک گریباں میرا
اپنے آنسو مرے دامن میں چھپانے والے

کس سے پوچھوں یہ سیہ رات کٹے گی کس دن
سو گئے جا کے کہاں خواب دکھانے والے

ہر قدم دور ہوئی جاتی ہے منزل ہم سے
راہ گم کردہ ہیں خود راہ دکھانے والے

اب جو روتے ہیں مرے حال زبوں پر اخترؔ
کل یہی تھے مجھے ہنس ہنس کے رلانے والے