حسن اک دریا ہے صحرا بھی ہیں اس کی راہ میں
کل کہاں ہوگا یہ دریا یہ بھی تو سوچو ذرا
عبد الحفیظ نعیمی
کھڑا ہوا ہوں سر راہ منتظر کب سے
کہ کوئی گزرے تو غم کا یہ بوجھ اٹھوا دے
عبد الحفیظ نعیمی
ماضی کے ریگ زار پہ رکھنا سنبھل کے پاؤں
بچوں کا اس میں کوئی گھروندا بنا نہ ہو
عبد الحفیظ نعیمی
میں بھی اس صفحۂ ہستی پہ ابھر سکتا ہوں
رنگ تو تم مری تصویر میں بھر کر دیکھو
عبد الحفیظ نعیمی
مرے خلوص پہ شک کی تو کوئی وجہ نہیں
مرے لباس میں خنجر اگر چھپا نکلا
عبد الحفیظ نعیمی
مرے خوابوں کی چکنی سیڑھیوں پر
نہ جانے کس کا بت ٹوٹا پڑا ہے
عبد الحفیظ نعیمی
صدا کسے دیں نعیمیؔ کسے دکھائیں زخم
اب اتنی رات گئے کون جاگتا ہوگا
عبد الحفیظ نعیمی
سجدہ کے ہر نشاں پہ ہے خوں سا جما ہوا
یارو یہ اس کے گھر کا کہیں راستہ نہ ہو
عبد الحفیظ نعیمی
تمہارے سنگ تغافل کا کیوں کریں شکوہ
اس آئنے کا مقدر ہی ٹوٹنا ہوگا
عبد الحفیظ نعیمی