گرد فراق غازہ کش آئنہ نہ ہو
چاہو جو تم تو اپنے تصرف میں کیا نہ ہو
سجدہ کے ہر نشاں پہ ہے خوں سا جما ہوا
یارو یہ اس کے گھر کا کہیں راستہ نہ ہو
زخموں کی مشعلیں لیے گزرا ہے دل سے کون
یادوں کا کوئی بھٹکا ہوا قافلہ نہ ہو
کب سے کھڑا ہوں ایک دوراہے پہ بت بنا
سب کچھ جو دیکھتا ہو مگر بولتا نہ ہو
چومو لگاؤ آنکھوں سے سر پر رکھو اسے
یہ زندگی ورق کسی انجیل کا نہ ہو
سو بار اک گلی میں مجھے لے گیا یہ وہم
کھڑکی سے کوئی مصلحتاً جھانکتا نہ ہو
شرما گئے تھے دونوں ہی پہلی نظر کے بعد
شاید تمہیں تو یاد بھی وہ واقعہ نہ ہو
لاؤ نہ میرے سامنے عارض کے آفتاب
چہرے پہ کوئی حرف تمنا لکھا نہ ہو
ماضی کے ریگ زار پہ رکھنا سنبھل کے پاؤں
بچوں کا اس میں کوئی گھروندا بنا نہ ہو
ہو کر جدا بھی اس سے نعیمیؔ میں جی تو لوں
لیکن یہ ڈر ہے اس سے کہیں وہ خفا نہ ہو
غزل
گرد فراق غازہ کش آئنہ نہ ہو
عبد الحفیظ نعیمی