EN हिंदी
دعا کو ہاتھ مرا جب کبھی اٹھا ہوگا | شیح شیری
dua ko hath mera jab kabhi uTha hoga

غزل

دعا کو ہاتھ مرا جب کبھی اٹھا ہوگا

عبد الحفیظ نعیمی

;

دعا کو ہاتھ مرا جب کبھی اٹھا ہوگا
قضاوقدر کا چہرہ اتر گیا ہوگا

جو اپنے ہاتھوں لٹے ہیں بس اس پہ زندہ ہیں
خدا کچھ ان کے لیے بھی تو سوچتا ہوگا

تری گلی میں کوئی سایہ رات بھر اب بھی
سراغ جنت گم گشتہ ڈھونڈتا ہوگا

جو غم کی آنچ میں پگھلا کیا اور آہ نہ کی
وہ آدمی تو نہیں کوئی دیوتا ہوگا

تمہارے سنگ تغافل کا کیوں کریں شکوہ
اس آئنے کا مقدر ہی ٹوٹنا ہوگا

ہے میرے قتل کی شاہد وہ آستیں بھی مگر
میں کس کا نام لوں سو بار سوچنا ہوگا

یہ میری پیاس کے ساغر تیرے لبوں کی شراب
رواج و رسم محبت کا معجزہ ہوگا

پھرآرزو کےکھنڈر رنگ و بو میں ڈوب چلے
فریب خوردہ کوئی خواب دیکھتا ہوگا

ستارےبھی تری یادوں کے بجھتے جاتے ہیں ہیں
غم حیات کا سورج نکل رہا ہوگا

صدا کسے دیں نعیمیؔ کسے دکھائیں زخم
اب اتنی رات گئے کون جاگتا ہوگا