EN हिंदी
عباس تابش شیاری | شیح شیری

عباس تابش شیر

53 شیر

آنکھوں تک آ سکی نہ کبھی آنسوؤں کی لہر
یہ قافلہ بھی نقل مکانی میں کھو گیا

عباس تابش




ابھی تو گھر میں نہ بیٹھیں کہو بزرگوں سے
ابھی تو شہر کے بچے سلام کرتے ہیں

عباس تابش




اگر یونہی مجھے رکھا گیا اکیلے میں
بر آمد اور کوئی اس مکان سے ہوگا

عباس تابش




بیٹھے رہنے سے تو لو دیتے نہیں یہ جسم و جاں
جگنوؤں کی چال چلیے روشنی بن جائیے

عباس تابش




بس ایک موڑ مری زندگی میں آیا تھا
پھر اس کے بعد الجھتی گئی کہانی میری

عباس تابش




بولتا ہوں تو مرے ہونٹ جھلس جاتے ہیں
اس کو یہ بات بتانے میں بڑی دیر لگی

عباس تابش




دے اسے بھی فروغ حسن کی بھیک
دل بھی لگ کر قطار میں آیا

عباس تابش




ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

عباس تابش




فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا
جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا

عباس تابش