یہ تم سے کس نے کہا ہے کہ داستاں نہ کہو
مگر خدا کے لیے اتنا سچ یہاں نہ کہو
یہ کیسی چھت ہے کہ شبنم ٹپک رہی ہے یہاں
یہ آسمان ہے تم اس کو سائباں نہ کہو
رہ حیات میں ناکامیاں ضروری ہیں
یہ تجربہ ہے اسے سعیٔ رائیگاں نہ کہو
مری جبین بتائے گی عظمتیں اس کی
اسے خدا کے لیے سنگ آستاں نہ کہو
یہاں مقیم ہیں ویرانیاں رگ و پے میں
تم اور کچھ بھی کہو اس کو شہر جاں نہ کہو
جہاں جہاں بھی ستمگر ملیں ضرورت ہے
کہ اس مقام کو تم جادۂ اماں نہ کہو
معاشرے کا اثر تو ضرور ہے علویؔ
مری غزل کو زمانے کی داستاں نہ کہو
غزل
یہ تم سے کس نے کہا ہے کہ داستاں نہ کہو
عباس علوی