کوئے قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے ہے
اب تو کچھ فیصلہ کر جانے کو جی چاہے ہے
لوگ اپنے در و دیوار سے ہوشیار رہیں
آج دیوانے کا گھر جانے کو جی چاہے ہے
درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے زندہ رہئے
زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے
دل کو زخموں کے سوا کچھ نہ دیا پھولوں نے
اب تو کانٹوں میں اتر جانے کو جی چاہے ہے
چھاؤں وعدوں کی ہے بس دھوکا ہی دھوکا اے دل
مت ٹھہر گرچہ ٹھہر جانے کو جی چاہے ہے
زندگی میں ہے وہ الجھن کہ پریشاں ہو کر
زلف کی طرح بکھر جانے کو جی چاہے ہے
قتل کرنے کی ادا بھی حسیں قاتل بھی حسیں
نہ بھی مرنا ہو تو مر جانے کو جی چاہے ہے
جی یہ چاہے ہے کہ پوچھوں کبھی ان زلفوں سے
کیا تمہارا بھی سنور جانے کو جی چاہے ہے
رسن و دار ادھر کاکل و رخسار ادھر
دل بتا تیرا کدھر جانے کو جی چاہے ہے
غزل
کوئے قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے ہے
کلیم عاجز