دور ہوتے ہوئے قدموں کی خبر جاتی ہے
خشک پتے کو لیے گرد سفر جاتی ہے
پاس آتے ہوئے لمحات پگھل جاتے ہیں
اب تو ہر چیز دبے پاؤں گزر جاتی ہے
رات آ جائے تو پھر تجھ کو پکاروں یارب
میری آواز اجالے میں بکھر جاتی ہے
دوستو تم سے گزارش ہے یہاں مت آؤ
اس بڑے شہر میں تنہائی بھی مر جاتی ہے
غزل
دور ہوتے ہوئے قدموں کی خبر جاتی ہے
جاوید ناصر