بھلا کب دیکھ سکتا ہوں کہ غم ناکام ہو جائے
جو آرام دل و جاں ہے وہ بے آرام ہو جائے
محبت کیا اگر یوں صورت الزام ہو جائے
نظر ناکام اور ذوق نظر بدنام ہو جائے
قیامت ہے اگر یوں زندگی ناکام ہو جائے
وہ پہلو میں نہ ہوں اور گرمیوں کی شام ہو جائے
غم دل ہے مگر آخر غم دل کیا کہے کوئی
فسانہ مختصر ہو کر جب ان کا نام ہو جائے
محبت رہ چکی اور ماتم انجام باقی ہے
وہ آنکھیں اشک بھر لائیں تو اپنا کام ہو جائے
بڑی حسرت سے انساں بچپنے کو یاد کرتا ہے
یہ پھل پک کر دوبارہ چاہتا ہے خام ہو جائے
جیا لیکن مرا جینا کسی کے بھی نہ کام آیا
میں مرتا ہوں کہ شاید زندگی پیغام ہو جائے
نشورؔ احباب خوش دل کو ذرا ہنس بول لینے دو
قیامت ہے اگر احساس شاعر عام ہو جائے
غزل
بھلا کب دیکھ سکتا ہوں کہ غم ناکام ہو جائے
نشور واحدی