اپنے سائے کو اتنا سمجھانے دے
مجھ تک میرے حصے کی دھوپ آنے دے
ایک نظر میں کئی زمانے دیکھے تو
بوڑھی آنکھوں کی تصویر بنانے دے
بابا دنیا جیت کے میں دکھلا دوں گا
اپنی نظر سے دور تو مجھ کو جانے دے
میں بھی تو اس باغ کا ایک پرندہ ہوں
میری ہی آواز میں مجھ کو گانے دے
پھر تو یہ اونچا ہی ہوتا جائے گا
بچپن کے ہاتھوں میں چاند آ جانے دے
فصلیں پک جائیں تو کھیت سے بچھڑیں گی
روتی آنکھ کو پیار کہاں سمجھانے دے
غزل
اپنے سائے کو اتنا سمجھانے دے
وسیم بریلوی