EN हिंदी
تغافل شیاری | شیح شیری

تغافل

21 شیر

تم نظر کیوں چرائے جاتے ہو
جب تمہیں ہم سلام کرتے ہیں

آبرو شاہ مبارک




تمہارے دل میں کیا نامہربانی آ گئی ظالم
کہ یوں پھینکا جدا مجھ سے پھڑکتی مچھلی کو جل سیں

آبرو شاہ مبارک




ہر ایک بات کے یوں تو دیے جواب اس نے
جو خاص بات تھی ہر بار ہنس کے ٹال گیا

احمد راہی




اس نے سن کر بات میری ٹال دی
الجھنوں میں اور الجھن ڈال دی

عزیز حیدرآبادی




پڑھے جاؤ بیخودؔ غزل پر غزل
وہ بت بن گئے ہیں سنے جائیں گے

بیخود دہلوی




سن کے ساری داستان رنج و غم
کہہ دیا اس نے کہ پھر ہم کیا کریں

بیخود دہلوی




انہیں تو ستم کا مزا پڑ گیا ہے
کہاں کا تجاہل کہاں کا تغافل

بیخود دہلوی