EN हिंदी
قاسد شیاری | شیح شیری

قاسد

28 شیر

کسی کو بھیج کے خط ہائے یہ کیسا عذاب آیا
کہ ہر اک پوچھتا ہے نامہ بر آیا جواب آیا

احسن مارہروی




مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں

امیر مینائی




وہ اور وعدہ وصل کا قاصد نہیں نہیں
سچ سچ بتا یہ لفظ انہیں کی زباں کے ہیں

امیر مینائی




قاصد پیام ان کا نہ کچھ دیر ابھی سنا
رہنے دے محو لذت ذوق خبر مجھے

اثر لکھنوی




پتا ملتا نہیں اس بے نشاں کا
لیے پھرتا ہے قاصد جا بجا خط

بہرام جی




آتی ہے بات بات مجھے بار بار یاد
کہتا ہوں دوڑ دوڑ کے قاصد سے راہ میں

داغؔ دہلوی




کوئی نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد بتا دینا
تخلص داغؔ ہے وہ عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں

داغؔ دہلوی