EN हिंदी
فلسفہ شیاری | شیح شیری

فلسفہ

10 شیر

ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فرازؔ
رات تو رات ہے ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ

احمد فراز




لمحوں کے عذاب سہ رہا ہوں
میں اپنے وجود کی سزا ہوں

اطہر نفیس




جانے کتنے لوگ شامل تھے مری تخلیق میں
میں تو بس الفاظ میں تھا شاعری میں کون تھا

بھارت بھوشن پنت




نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم

فانی بدایونی




میں بھی یہاں ہوں اس کی شہادت میں کس کو لاؤں
مشکل یہ ہے کہ آپ ہوں اپنی نظیر میں

فرحت احساس




مدت کے بعد آج میں آفس نہیں گیا
خود اپنے ساتھ بیٹھ کے دن بھر شراب پی

فاضل جمیلی




روپ کی دھوپ کہاں جاتی ہے معلوم نہیں
شام کس طرح اتر آتی ہے رخساروں پر

عرفانؔ صدیقی