سونے سیاہ شہر پہ منظر پذیر میں
آنکھیں قلیل ہوتی ہوئی اور کثیر میں
مسجد کی سیڑھیوں پہ گداگر خدا کا نام
مسجد کے بام و در پہ امیر و کبیر میں
دراصل اس جہاں کو ضرورت نہیں مری
ہر چند اس جہاں کے لیے ناگزیر میں
میں بھی یہاں ہوں اس کی شہادت میں کس کو لاؤں
مشکل یہ ہے کہ آپ ہوں اپنی نظیر میں
مجھ تک ہے میرے دکھ کے تصوف کا سلسلہ
اک زخم میں مرید تو اک زخم پیر میں
ہر زخم قافلے کی گزر گاہ میرا دل
روئے زمیں پہ ایک لہو کی لکیر میں
غزل
سونے سیاہ شہر پہ منظر پذیر میں
فرحت احساس