EN हिंदी
نقاب شیاری | شیح شیری

نقاب

22 شیر

گو ہوائے گلستاں نے مرے دل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی

آغا حشر کاشمیری




اگرچہ وہ بے پردہ آئے ہوئے ہیں
چھپانے کی چیزیں چھپائے ہوئے ہیں

احمد حسین مائل




آنکھوں کو دیکھنے کا سلیقہ جب آ گیا
کتنے نقاب چہرۂ اسرار سے اٹھے

اکبر حیدرآبادی




مبہم تھے سب نقوش نقابوں کی دھند میں
چہرہ اک اور بھی پس چہرہ ضرور تھا

اکبر حیدرآبادی




ذرا پردہ ہٹا دو سامنے سے بجلیاں چمکیں
مرا دل جلوہ گاہ طور بن جائے تو اچھا ہو

علی ظہیر لکھنوی




سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

the veil slips from her visage at such a gentle pace
as though the sun emerges from a cloud's embrace

امیر مینائی




ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی
ترا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے

as yet the night does linger on do not remove your veil
lest your besotten follower re-gains stability

انور مرزاپوری