EN हिंदी
آواز شیاری | شیح شیری

آواز

18 شیر

صبر پر دل کو تو آمادہ کیا ہے لیکن
ہوش اڑ جاتے ہیں اب بھی تری آواز کے ساتھ

آسی الدنی




یہ بھی اعجاز مجھے عشق نے بخشا تھا کبھی
اس کی آواز سے میں دیپ جلا سکتا تھا

احمد خیال




گم رہا ہوں ترے خیالوں میں
تجھ کو آواز عمر بھر دی ہے

احمد مشتاق




موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی
زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو

احمد مشتاق




ایک آواز نے توڑی ہے خموشی میری
ڈھونڈھتا ہوں تو پس ساحل شب کچھ بھی نہیں

علیم اللہ حالی




محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے
خموشی بھی ہے یہ آواز بھی ہے

عرش ملسیانی




مجھ سے جو چاہئے وہ درس بصیرت لیجے
میں خود آواز ہوں میری کوئی آواز نہیں

اصغر گونڈوی