آدھی سے زیادہ شب غم کاٹ چکا ہوں
اب بھی اگر آ جاؤ تو یہ رات بڑی ہے
ثاقب لکھنوی
آپ اٹھ رہے ہیں کیوں مرے آزار دیکھ کر
دل ڈوبتے ہیں حالت بیمار دیکھ کر
ثاقب لکھنوی
اپنے دل بے تاب سے میں خود ہوں پریشاں
کیا دوں تمہیں الزام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ثاقب لکھنوی
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
ثاقب لکھنوی
بلا سے ہو پامال سارا زمانہ
نہ آئے تمہیں پاؤں رکھنا سنبھل کر
ثاقب لکھنوی
بوئے گل پھولوں میں رہتی تھی مگر رہ نہ سکی
میں تو کانٹوں میں رہا اور پریشاں نہ ہوا
ثاقب لکھنوی
چل اے ہم دم ذرا ساز طرب کی چھیڑ بھی سن لیں
اگر دل بیٹھ جائے گا تو اٹھ آئیں گے محفل سے
ثاقب لکھنوی
دیدۂ دوست تری چشم نمائی کی قسم
میں تو سمجھا تھا کہ در کھل گیا مے خانے کا
ثاقب لکھنوی
ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
ثاقب لکھنوی