آئے جو چند تنکے قفس میں صبا کے ساتھ
میں نے انہیں کو اپنا نشیمن سمجھ لیا
سلام سندیلوی
بہت امید تھی منزل پہ جا کر چین پائیں گے
مگر منزل پہ جب پہنچے تو نظم کارواں بدلا
سلام سندیلوی
بجلی گرے گی صحن چمن میں کہاں کہاں
کس شاخ گلستاں پہ مرا آشیاں نہیں
سلام سندیلوی
چند تنکوں کے سوا کیا تھا نشیمن میں مرے
برق ناداں کو سمجھ آئی بہت دیر کے بعد
سلام سندیلوی
دل کی دھڑکن بھی ہے ان کو ناگوار
ان سے کچھ کہنے کی جرأت کیا کریں
سلام سندیلوی
گلوں کے روپ میں بکھرے ہیں ہر طرف کانٹے
چلے جو کوئی تو دامن ذرا بچا کے چلے
سلام سندیلوی
گل و غنچہ اصل میں ہیں تری گفتگو کی شکلیں
کبھی کھل کے بات کہہ دی کبھی کر دیا اشارا
سلام سندیلوی
ہے تشنہ لبی لیکن ہم کیوں اسے زحمت دیں
اپنا ہی لہو پی لیں ساقی کو جگائیں کیا
سلام سندیلوی
ہمیشہ دور کے جلوے فریب دیتے ہیں
ہے ورنہ چاند بیاباں کسی کو کیا معلوم
سلام سندیلوی