مجھے نہ دیکھو مرے جسم کا دھواں دیکھو
جلا ہے کیسے یہ آباد سا مکاں دیکھو
ابراہیم اشکؔ
بس ایک بار ہی توڑا جہاں نے عہد وفا
کسی سے ہم نے پھر عہد وفا کیا ہی نہیں
ابراہیم اشکؔ
کوئی تو ہوگا جس کو مرا انتظار ہے
کہتا ہے دل کہ شہر تمنا میں لے کے چل
ابراہیم اشکؔ
کوئی بھروسہ نہیں ابر کے برسنے کا
بڑھے گی پیاس کی شدت نہ آسماں دیکھو
ابراہیم اشکؔ
کس لیے کترا کے جاتا ہے مسافر دم تو لے
آج سوکھا پیڑ ہوں کل تیرا سایا میں ہی تھا
ابراہیم اشکؔ
خود اپنے آپ سے لینا تھا انتقام مجھے
میں اپنے ہاتھ کے پتھر سے سنگسار ہوا
ابراہیم اشکؔ
کریں سلام اسے تو کوئی جواب نہ دے
الٰہی اتنا بھی اس شخص کو حجاب نہ دے
ابراہیم اشکؔ
دنیا بہت قریب سے اٹھ کر چلی گئی
بیٹھا میں اپنے گھر میں اکیلا ہی رہ گیا
ابراہیم اشکؔ
چلے گئے تو پکارے گی ہر صدا ہم کو
نہ جانے کتنی زبانوں سے ہم بیاں ہوں گے
ابراہیم اشکؔ