EN हिंदी
حبیب جالب شیاری | شیح شیری

حبیب جالب شیر

22 شیر

دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

حبیب جالب




دنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں
دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل

حبیب جالب




دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

حبیب جالب




چھوڑ اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے
ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسائے رکھا

حبیب جالب