EN हिंदी
بسملؔ  عظیم آبادی شیاری | شیح شیری

بسملؔ  عظیم آبادی شیر

21 شیر

اللہ تیرے ہاتھ ہے اب آبروئے شوق
دم گھٹ رہا ہے وقت کی رفتار دیکھ کر

بسملؔ  عظیم آبادی




بسملؔ بتوں کا عشق مبارک تمہیں مگر
اتنے نڈر نہ ہو کہ خدا کا بھی ڈر نہ ہو

بسملؔ  عظیم آبادی




داستاں پوری نہ ہونے پائی
زندگی ختم ہوئی جاتی ہے

بسملؔ  عظیم آبادی




دیکھا نہ تم نے آنکھ اٹھا کر بھی ایک بار
گزرے ہزار بار تمہاری گلی سے ہم

بسملؔ  عظیم آبادی




ایک دن وہ دن تھے رونے پہ ہنسا کرتے تھے ہم
ایک یہ دن ہیں کہ اب ہنسنے پہ رونا آئے ہے

بسملؔ  عظیم آبادی




غیروں نے غیر جان کے ہم کو اٹھا دیا
بیٹھے جہاں بھی سایۂ دیوار دیکھ کر

بسملؔ  عظیم آبادی




ہنسی بسملؔ کی حالت پر کسی کو
کبھی آتی تھی اب آتی نہیں ہے

بسملؔ  عظیم آبادی




ہو نہ مایوس خدا سے بسملؔ
یہ برے دن بھی گزر جائیں گے

بسملؔ  عظیم آبادی




اک غلط سجدے سے کیا ہوتا ہے واعظ کچھ نہ پوچھ
عمر بھر کی سب ریاضت خاک میں مل جائے ہے

بسملؔ  عظیم آبادی