EN हिंदी
عدیم ہاشمی شیاری | شیح شیری

عدیم ہاشمی شیر

19 شیر

میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دنیا کی پستی میں اتر جانا نہیں آتا

عدیم ہاشمی




بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے

عدیم ہاشمی




کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیمؔ
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے

عدیم ہاشمی




کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک
ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر

عدیم ہاشمی




جو مہ و سال گزارے ہیں بچھڑ کر ہم نے
وہ مہ و سال اگر ساتھ گزارے ہوتے

عدیم ہاشمی




اک کھلونا ٹوٹ جائے گا نیا مل جائے گا
میں نہیں تو کوئی تجھ کو دوسرا مل جائے گا

عدیم ہاشمی




ہوا ہے جو سدا اس کو نصیبوں کا لکھا سمجھا
عدیمؔ اپنے کیے پر مجھ کو پچھتانا نہیں آتا

عدیم ہاشمی




ہم بہر حال دل و جاں سے تمہارے ہوتے
تم بھی اک آدھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے

عدیم ہاشمی




فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

عدیم ہاشمی