EN हिंदी
تمام عمر کی تنہائی کی سزا دے کر | شیح شیری
tamam umr ki tanhai ki saza de kar

غزل

تمام عمر کی تنہائی کی سزا دے کر

عدیم ہاشمی

;

تمام عمر کی تنہائی کی سزا دے کر
تڑپ اٹھا مرا منصف بھی فیصلہ دے کر

میں اب مروں کہ جیوں مجھ کو یہ خوشی ہے بہت
اسے سکوں تو ملا مجھ کو بد دعا دے کر

میں اس کے واسطے سورج تلاش کرتا ہوں
جو سو گیا مری آنکھوں کو رت جگا دے کر

وہ رات رات کا مہماں تو عمر بھر کے لیے
چلا گیا مجھے یادوں کا سلسلہ دے کر

جو وا کیا بھی دریچہ تو آج موسم نے
پہاڑ ڈھانپ دیا ابر کی ردا دے کر

کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک
ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر

چٹخ چٹخ کے جلی شاخ شاخ جنگل کی
بہت شرار ملا آگ کو ہوا دے کر

پھر اس کے بعد پہاڑ اس کو خود پکاریں گے
تو لوٹ آ اسے وادی میں اک صدا دے کر

ستون ریگ نہ ٹھہرا عدیمؔ چھت کے تلے
میں ڈھ گیا ہوں خود اپنے کو آسرا دے کر