EN हिंदी
شرارے | شیح شیری
sharare

نظم

شرارے

اسرار الحق مجاز

;

خود کو بہلانا تھا آخر خود کو بہلاتا رہا
میں بہ ایں سوز دروں ہنستا رہا گاتا رہا

مجھ کو احساس فریب رنگ و بو ہوتا رہا
میں مگر پھر بھی فریب رنگ و بو کھاتا رہا

میری دنیائے وفا میں کیا سے کیا ہونے لگا
اک دریچہ بند مجھ پر ایک وا ہونے لگا

اک نگار ناز کی پھرنے لگیں آنکھیں مجازؔ
اک بت کافر کا دل درد آشنا ہونے لگا

عین ہنگام طرب روح طرب تھرا گئی
دفعتاً دل کے افق پر اک گھٹا سی چھا گئی

ایک آغوش تمنا کا تقاضا دیکھ کر
ایک دل کی سرد مہری بھی مجھے یاد آ گئی

مجرم سرتابی حسن جواں ہو جائیے
گل فشانی تا کجا شعلہ فشاں ہو جائیے

کھائیے گا اک نگاہ لطف کا کب تک فریب
کوئی افسانہ بنا کر بد گماں ہو جائیے