EN हिंदी
زندگی خاک میں بھی تھی ترے دیوانے سے | شیح شیری
zindagi KHak mein bhi thi tere diwane se

غزل

زندگی خاک میں بھی تھی ترے دیوانے سے

میلہ رام وفاؔ

;

زندگی خاک میں بھی تھی ترے دیوانے سے
اب نہ اٹھے گا بگولا کوئی ویرانے سے

اس قدر ہو گئی کثرت ترے دیوانوں کی
قیس گھبرا کے چلا شہر کو ویرانے سے

جل مرا آگ محبت کی اسے کہتے ہیں
جلنا دیکھا نہ گیا شمع کا پروانے سے

کس کی بیگانہ وشی سے یہ تحیر آیا
کہ اب اپنے بھی نظر آتے ہیں بیگانے سے

شیخ صاحب بھی ہوئے معتقد پیر مغاں
آج یہ تازہ خبر آئی ہے مے خانے سے

اتنی توہین نہ کر میری بلا نوشی کی
ساقیا مجھ کو نہ دے ماپ کے پیمانے سے

اے وفاؔ اپنے بھی جب آنکھ چرا لیتے ہیں
بے رخی کا ہو گلا کیا کسی بیگانے سے